رُوبرُو

A71C7AF3-446B-4EA5-9028-AABA692C8E31

تُم چاند ہو اور

تُمہارے رُوبرُو چمکتا سِتارہ میں

تُم گُلشن ہو اور

تُمہاری ڈالی سے لِپٹا کانٹا میں

تُم کُندن ہو اور

تُمہارے اِیندھن میں جلتا شرارہ میں

تُم سمندر ہو اور

تُمہارے بدن میں گھُلتا کِنارہ میں

تُم سفر ہو اور

تُمہاری جانب مُڑتا ہُوا راستہ میں

میرے دل کا مہتاب

Night sky

اُسے آرزُو ہے ٹھِہرتی جھیل کی

میں تو اُس کے عکس کی دیوانی ہُوں

عرش لیتا ہے پناہ اُس کی آغوش میں

اور میں اُس کے دِیدار کی دیوانی ہُوں

اُس کو رِہنا ہے بن کے کائنات کا

مگر میں اُس کے محل کی دیوانی ہُوں

اُس کے دل میں انگڑائی لیتا ہے ساحل

میں اُس مچلتی لِہر کی دیوانی ہُوں

غرور ہے جس شُہرت و رعنائی کا اُسے

میں اُس خُود اعتمادی کی دیوانی ہُوں

کریں ستارے شکوہ اُس کی اداؤں کا

مگر میں اُس بے رُخی کی دیوانی ہُوں

مُحبّت میں جسے منظور ہے درد و فُرقت

میں نامُراد اُس خسارے کی دیوانی ہوں

 

خُود سَری

D3633CD9-B406-4B72-B551-0B5104C3717E

کھڑی ہُوں اُس اِنتظار کی

چاہ میں کہ جب دراڑوں میں

اثر ہو گِہرا تب مکاں گِر جاۓ

اور میں  بھی بِکھر جاؤُں۔۔۔

کیوں نہیں ٹُوٹتے موتی اِرادوں

کے کیونکہ نہیں چُور ہوتے

محل خیالوں کے، گر یہ ٹُوٹیں

تو شاید میں بھی ٹُوٹ جاؤُں۔۔۔

کئی پُرانی یادوں کے صفحے

اور چند چمکتے بے باک آنچل

اگر یہ سَرک جائیں سَر سے تو

کہِیں بے پردہ ہی نہ ہو جاؤُں۔۔۔

ابھی بھی نظر آتی ہیں وہ

مست کلیاں تو کبھی سُنتی

ہُوں مدہوش صدائیں

سوچا اِس شہر کو الوداٰع

کہہ دُوں ، گُماں ہے کہِیں اپنے

ہی فِعل سے نہ مُکر جاؤُں۔۔۔

میرے پیروں میں دیکھ یہ زنجیر

کس کی ہے، یہ کھنک کس کی ہے

یہ خاموش نہیں ہوتی ، بُلاتی  ہے

تُمہیں ، گر یہ سو جاۓ کبھی تو

شاید میں بھی سو جاؤُں۔۔۔

شِدّت سے کی  ہےجس کی پرستش

اُس خُدا سے پُوچھا تھا کبھی قِبلے

کا رُخ میں نے، گر اب کرے وِرد دل

اُس کی تسبیح کا، کہِیں سجدے

میں ہی نہ مر جاؤُں۔۔۔

 

 

مدھم دھُوپ

8E42FDF7-EBAA-42C1-AC15-5F29461B3CEB

دُھوپ سُرخ اور میں

رہتے ہیں ساتھ ساتھ

کبھی پِگھلتے تھے جس

تپش میں جل کر اب

جھُلستے ہیں ساتھ ساتھ۔۔۔

جنہیں قُربت کی نرم

چھاؤں میں مِلتی تھی

پناہ اب وہ ہِجر کے کانٹوں

پہ سوتے ہیں ساتھ ساتھ۔۔۔

برستے تھے لمس کی حِدّت

سے جو اَشک کبھی کبھی

اب چھلکتے ہیں یاد میں

کسی کے ساتھ ساتھ۔۔۔

ترازُو

AB7AA546-7D7E-4D2E-A3B7-A57DDE49FC5E

کاش وہ سمجھ پاتا کہ

عشق اور کاروبار ہیں دو

الگ دُنیاؤں کے جزیرے

افسوس کہ اُس نے پرکھا

میری مُحبّت کو اُمیدوں کے

ترازُو میں۔۔۔

کاش اُسے دِکھائی نہ دیتا

میرے وجود کے آر پار کبھی

افسوس کہ میرے خلُوص کو

اُس نے جانچا وفا کے

ترازُو میں۔۔۔

کاش وہ چھُو پاتا نرم

کِرنوں کو، میری آہوں کی

مُلائم آرزوؤں کو،  مگر افسوس

کہ میرے آنسوؤں کو تولا اُس

نے خود غرضی کے

ترازُو میں۔۔۔

کاش کہ پرواہ نہ کرتی اُس

ستم کا جس کے ساۓ تلے

کُچلا اُس نے میری خواہشات

کو، افسوس کہ میرے پاگل پن

کو سراہا اُس نے شوق کے

ترازُو میں۔۔۔