
کھڑی ہُوں اُس اِنتظار کی
چاہ میں کہ جب دراڑوں میں
اثر ہو گِہرا تب مکاں گِر جاۓ
اور میں بھی بِکھر جاؤُں۔۔۔
کیوں نہیں ٹُوٹتے موتی اِرادوں
کے کیونکہ نہیں چُور ہوتے
محل خیالوں کے، گر یہ ٹُوٹیں
تو شاید میں بھی ٹُوٹ جاؤُں۔۔۔
کئی پُرانی یادوں کے صفحے
اور چند چمکتے بے باک آنچل
اگر یہ سَرک جائیں سَر سے تو
کہِیں بے پردہ ہی نہ ہو جاؤُں۔۔۔
ابھی بھی نظر آتی ہیں وہ
مست کلیاں تو کبھی سُنتی
ہُوں مدہوش صدائیں
سوچا اِس شہر کو الوداٰع
کہہ دُوں ، گُماں ہے کہِیں اپنے
ہی فِعل سے نہ مُکر جاؤُں۔۔۔
میرے پیروں میں دیکھ یہ زنجیر
کس کی ہے، یہ کھنک کس کی ہے
یہ خاموش نہیں ہوتی ، بُلاتی ہے
تُمہیں ، گر یہ سو جاۓ کبھی تو
شاید میں بھی سو جاؤُں۔۔۔
شِدّت سے کی ہےجس کی پرستش
اُس خُدا سے پُوچھا تھا کبھی قِبلے
کا رُخ میں نے، گر اب کرے وِرد دل
اُس کی تسبیح کا، کہِیں سجدے
میں ہی نہ مر جاؤُں۔۔۔
Like this:
Like Loading...