وہ آنکھیں

وہ آنکھیں میرے روز مرّہ کے بھاگ دوڑ میں پیش پیش ہیں۔ کبھی وہ ہلکی سی شعاع بن کر میرے صحن کی دھوپ سجاتی ہیں تو کبھی بارش کی گرجتی بُوندوں میں اپنا عکس چھوڑ جاتی ہیں۔ نا ممکن ہے اِن حصاروں سے پیچھا چھُڑانا۔ جب آدھی رات کی بے چینی ستانے لگے تو وہ آنکھیں بُلاتی ہیں ماضی کی تصاویر کو پھر سے تازہ کرنے میں۔ جب کبھی گُزرتی ہُوں اُن شاہراؤں سے جہاں کبھی ہم مِلے تھے ، وہ مجھے مِلتی ہیں کبھی مسافر بن کے تو کبھی رِہ نُما بن کے۔

اکثر جب خزاں کے موسم پہ عروج ہوتا ہے تو وہ آنکھیں مجھ سے اُن پت جھڑ کا حساب مانگتی ہیں جہاں کبھی ہم نے ایک ایک لمحے کو ٹُوٹتے دیکھا تھا۔ جب سردیوں کی پِیلی صُبح گھڑی کے نو بجاتی تھی تو میرا انتظار اور بھی بیتاب ہو جاتا تھا کہ کب اُن نظروں کو خود میں جذب ہوتا پاؤُں گی میں۔ میرے جنون کا صبر اور میری انگلیوں میں بہتا میٹھا درد اور میٹھا ہوتا چلا جاتا تھا۔

جانے کتنے عرصے بعد بھی وہ آنکھیں میرے ساتھ ہیں۔ جہاں جہاں بھی جاؤُں ، وہ مجھ پہ اپنی نظریں جماۓ ہیں۔ کسی راستے بھی چل نِکلوں کہیِں بھی قدم جمنے کگیں، وہ دلکش آنکھیں میرے وجود کا آئینہ بن چُکی ہیں۔ ے شک وہ میرے ساتھ نہیں مگر میری روح کے گوشے گوشے میں اُن کا بسر ہے۔ حقیقت کو جھُٹلایا نہیں جا سکتا۔

وہ ہیں یہیں کہیِں۔ میرے رہنے میں ، میرے سہنے میں ، میرے راستوں میں یا شاید میری منزل میں۔

رات اور ڈر

رات ایک ایسی قبر ہے جہاں کی تنگ دستی اور سنٗاٹے اپنے ہی کیۓ گۓ گُناہوں کی گواہی دیتے ہیں۔ کبھی خواہشوں میں لِپٹے خود غرضی کے جھُوٹے دعوے تو کبھی سَچ کے لحاف میں پوشیدہ فریبی مخملی جال۔ یہ سب ڈراتے ہیں مُحبّت کا لِبادہ اوڑھے۔ راتیں اپنے ساتھ اکثر خوف کی ریشمی پوشاک پہنے ہمیں لُبھانے آتی ہیں۔ ہم کبھی اِن کی دغاباز چالوں سے لُطف اندوز ہوتے ہیں تو کبھی اِن سے بھری خوفناک اداؤں میں پھنستے بھی ہیں۔

جب آدھی شب کے طُوفانی جنون کا دیدار ہوتا ہے تو اندازہ لگایا جاتا ہے کہ خیالات کا تجسّس اور حقیقت کا تصوّر آخر ہے کیا۔

یہ ڈر اور یہ حیران کُن تجربہ محض ایک اتفاق نہیں مگر سَچ کے دائرے میں قید وہ المیّہ ہے جسے سمجھنے میں برسوں لگ جائیں۔ انسان عُمر کے اُس حِصّے میں داخل ہو جاتا ہے جہاں سے اگلا قدم موت ہے۔

نِصف پہر کی کاٹتی ہُوئی رات بس ایک اِشارہ ہے اُن چاہتوں کی طرف جہاں صرف مایوسی ہی گھیرا ڈال سکتی ہے۔ یہی داستان ہے خوفناک راتوں کی اور یہی سچّائی گُمراہی میں کیۓ گُناہوں کی۔۔

اور کوئی فلاح نہیں۔۔۔۔