کِہتا تھا کہ نظر آتے ہیں رنگ دُنیا
کے میری آنکھوں میں جھانکے اگر۔۔۔
مجھے تو خود اپنا عکس
نظر آتا نہیں کہِیں اب۔۔۔
کہِتا تھا کہ میری دھڑکنوں
میں سانس لیتا تھا وجود اُس کا۔۔۔
مجھے تو اپنے ہی دل نے
لُوٹ لیا جھُوٹے خواب دِکھا کر۔۔۔
کِہتا تھا صدا رہے گا سایہ
بن کے میرے پیراہن کا۔۔۔
مجھے تو اپنے ہی آنچل نے
بے نقاب کر دیا سرِ راہ یُونہی۔۔۔
کِہتا تھا جگر کے پاس ہُوں
میں ایک یاد کی ڈور سے بندھی۔۔۔
مجھے تو اپنی ہی رُوح کے تاروں
نے کاٹ دیا فالتو سمجھ کر۔۔۔
کِہتا تھا الفاظ پہ جان دیتا ہے
جو میرے قلم سے زندگی پاتے ہیں۔۔۔
مجھے تو اپنی ہی شاعری سے
نفرت ہونے لگی ہے اب۔۔۔