خود پرستش

میرا ہر لفظ مُحبّت پہ شروع اور مُحبّت پہ ہی ختم ہوتا ہے۔ چاہے وہ کسی اپنے کے لیۓ ہو یا پھر کسی عشق سے منسُوب۔ مُحبّت کی شناخت ایک ہی رشتے کی پابند نہیں مگر کئی رنگوں کے گِرد بُنتی ایسے جال کی مانند ہے جس سے ایک کائنات تخلیق ہوتی ہے۔ کبھی مُجھے لگتا تھا کہ عشق اور مُحبّت فقط صرف ایک شخص کی مرّہونِ مِنّت ہیں مگر میری سوچ ایک محدُود سو چ تھی۔

مُحبّت اور عشق اِن سب رشتوں سے بالا تَر ہیں۔ اِنہیں نہ ہی کسی بندش کی ضرورت ہے اور نا ہی کسی نام کی۔

وہ لوگ جو خود کو ایک کامیاب انسان سمجھتے ہیں اور اُنہیں لگتا ہے کہ اُن کی اَنا ایک ایسے احساس کی حامل ہے جہاں اُن کے وجود کے علاوہ کسی اور شخص کے داخلے کی ضروری نہیں ، وہ انتہائی غلط فہمی کا شِکار ہیں۔۔

خُود پسندی ایک اور بات ہے اور خود برتری ایک الگ مُعّمہ۔۔

کیوں آپ خود پہ مر مِٹے؟ کیوں آپ کو لگا کہ آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں اِس جہان میں؟ کیا آپ نے خُدا کو ماننے سے انکار کر دیا یا پھر اُس کی بڑائی کو اپنے جذبات پہ فوقیّت دینا ترجیح سمجھا؟

عشق کی دُنیا میں نہ تو گُھمنڈ طاری ہوتا ہے اور نہ ہی خود پسندی جیسا کوئی اِرادہ۔۔

عشق اِن سب منزلوں سےآگے ہے اور جُدا بھی۔۔۔

کڑواہ سچ

جب لگے کہ زندگی تھوڑی ہے اور مُحبت بہت زیادہ تو اُس بات کا اندازہ ہو جانا چاہیۓ کہ ہر پَل ہمیں جِینا ہے۔ ہم ہمیشہ اپنی اَنا میں زندگی گُزار دیتے ہیں کہ دُوسرے نے ہمیں کیا دِیا۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم نے اُسے کیا دِیا۔ مُحبّت کرنا ایک سچّائی ہے اور مُحبّت کو نِبھانا دُوسری۔ بہت سے لوگ دَم بھرتے ہیں کہ اُنہوں نے عشق کیا مگر عمل سے کر کے دِکھانا دوسری بات ہے۔

کسی کی یاد میں پَل پَل مرنا ایک الگ بات ہے۔ یہ وہی جانتا ہے جس نے جھیلا ہو۔ عشق کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔ اپنے گُناہوں کو تسلیم کرنا اور اُن کو درست کرنے کی کوشش کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ہر کوئی اپنا دامن بچانا چاہتا ہے گر کیا یہ مُحبّت کا اِنصاف ہے؟ پتا نہیں۔

عشق اَپ کو قُربانی اور ایثار سِکھاتا ہے اور زندگی چھیِننا۔

حقیقت اور داستان میں یہی فرق ہے جو سچّائی اور فسانے میں۔ ہم سب سراب کے پیچھے بھاگتے ہیں مگر کیا خواب ہمارے راستوں کی رہنمائی کرتے ہیں؟ بس یہی تو سمجھ نہیں آتا کہ کتنی مسافتوں کے سفر کے باوجود ہم اپنے مقصد سے نا آشنا ہیں۔

میں ایک ایسے انجان راستے پر سوار ہُوں جہاں کی پَگ ڈنڈیاں ایک ایسے نا معلوم راستے کو جاتی ہیں جہاں سواۓ کھائیوں کے کُچھ نہیں۔ اور جہاں کی منزل سواۓ ادھورے مراسم کہ کہِیں اور لے جا نہیں سکتی۔

بس یہی ایک سیاہ سَچ ہے۔

ایک کہانی؟

ہم کیا ہیں؟ مِٹّی کے ڈھیر میں دبے چند ورق یا پھر زندگی کے قلم سے لِکھّے وہ اشعار جنہیں اب کوئی پڑھتا بھی نہیں۔ میں نے زندگی کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے۔ کبھی وہ خود غرضی میں لِپٹی کوئی دا ستان ہے یا پھر کسی درد کے لحاف میں رچی کہانی۔ مُحبّت ایک ایسی رُباعی ہے جس کے سُر کبھی بِگڑتے تو کبھی ناچتے نظرآتے ہیں۔

میں نے بھرپُور گُزاری ہے یہ حیات۔ مُحبّت میں گِھرے رشتے ہوں یا حسرتوں میں جاگتے خواب ، اِن سبھی خواہشوں کے سرہانے میں نے گُزاری ہیں اپنی راتیں۔ ایک نۓ چہرے کا اِنتخاب ، اِک نئی لگن کا اِنتظار کیا ہے میں نے۔

جب بھی وہ مُجھے مِلا ، ایک نیا دھوکہ ایک سراب مُجھے مِلا میرا خیر مقدم کرنے کے لیۓ۔ زندگی ہے کیا؟ اِس کا کیا مقصد ہے؟

میں اب تک سمجھ نہیں پائی۔

عشق مُحبّت یا پھر کوئی سراب؟

وہ مِلا بھی پر ایک کہانی بن کر۔ ایک شعر بن کر۔ شاید وہ چاہتا تھا کہ میرے اشعار میں وہ ایک کردار بن کر جِیۓ۔

مگر شاید میں ہی اُس کو داستان بنانا چاہتی تھی۔

دردِ مُشترک

چلو پھر پیڑِ راہ گُزر نِصف بانٹ لیں

کُچھ سرُور بقا کا رنج و غم بانٹ لیں

سیاہ رات کے نیم جواں فسانے اور

ماضی کے معصوم ناکردہ گُناہ بانٹ لیں

شمسِ لمس و تپِش میں چُور سُنہری جسم

اِس رنگِ خوشبو میں دُھلے جذبات بانٹ لیں

جو تھی پرائی خوشی منسُوب اُس کے نام سے

وہ مشترکۂِ احساس و شناخت بانٹ لیں

محض ایک خیال؟

کبھی تو لگتا تھا کہ یہ سب ایک حقیقت ہے۰ مگر وقت سب سے بڑا اُستاد ہے۰ یہ وہ ھی سِکھا دیتا ہے جو انسان سیِکھنے سے قاصِر ہے۰ محبتوں کی خواہش کرنے والوں کی یہی سزا مُقرّر ہے۰ یہ ایک لا حاصل سا فرار ہے جہاں کوئی پُہنچنا بھی چاہے تو نہیں پُہنچ سکتا۰ کبھی لگتا تھا کہ مُحبّت سے اعلیٰ کوئی جذبہ نہیں مگر یہ سب ایک جھوٹ ثابت ہُوا۰

جن اَنکھوں کو یاد کر کے راتوں کی چاندنی کو ماندھ کیا ہے وہ اب دن کے اُجالے میں کبھی تپِش تو کبھی آگ بن کر برستی ہیں۔

وہ شاید اُس ٹُوٹے تارے کے مانند تھِیں جسے اپنی خود کی منزل کا پتا نہ ہو۰ اور میں پاگل محض ایک سراب بن کے رہ گئی۰

حُسن کے گُلدستے میں لِپٹی کوئی غزل یا پھر مُرجھاۓ پھُولوں کی باسی مِہک۰

مُحبّت عشق سب بے وفا اور زندگی ایک دھوکہ۰

اجنبی راتیں۔۔

وہی دن ہیں وہی شامیں اور اُن میں چھُپی ہُوئی کہانیاں بھی وہی پُرانی ہیں مگر راتیں نئی سی ہیں۔ ہر بار ایسے ہی لگتا ہے کہ روز ایک انجانی کہانی ایک نۓ انداذ میں آپ کا تعاقب کر رہی ہوتی ہے۔ ایک نو خیز کروٹ تو کبھی روشن صُبح کی طرح جواں اِنتظار میں بیٹھی اُسے کھوج رہی ہوتی ہے۔ کئی سال بِیتے مگر تنہائی اور نئی کہانی کا ہمیشہ اِنتظار کیا ہے۔ کیا یہ میری اپنی راتیں ہیں یا پھر پرائی؟

کبھی دل تو کبھی رُوح کا قِصّہ لے کربیٹھ جاتا ہے کمزور لمحہ اور کبھی تو چاند کی شوخی ماندھ دِکھائی دیتی ہے۔۔ یہی ہے شاید پُرانے سِلسلوں کی ادھورے چاہت جو کبھی مکمل نہی ہوتی اور شاید اجنبی راتوں کے بِکھرتے فسانے۔