ریشَم

image

مخمَلی دھاگوں میں پیوَست سانسیں

سانسوں سے بندھی اُلجھتی آہیں

آہوں میں چُھپے مدہوش شرارے

شراروں سے آراستہ ریشمی جھنکاریں

جھنکاروں میں بَجتے مَرمریں اِشارے

اِشاروں میں جھَلکتے شوخ سِتارے

ستاروں میں چمکتی افشانی سِلوٹیں

سِلوٹوں سے لِپٹتے مُلائم افسانے

افسانوں میں تڑپتے نرم نظارے

نظاروں سے بیاں ہوتے جواں سہارے

بازی

image

کورے نینوں میں جب جھانکوُں ٹُوٹے تار ہی دیکھوں

کبھی جُنبشِ سوز کہیں بےسُر و ساز دیکھُوں

فراموش شام کے بِسرے سایوں میں خُود کو کھوجُوں

بے رَبط قافلو ں میں چُھپے دِلکش مناظر دیکھوُں

بیابانِ دشت کے بُجھتے دِیوں  سے ذات جلاؤں

سرگرم کوششِ رسائی کی آڑ میں مات دیکھوُں

بازئِ زندگی کے فریبی رُخسار پہ مُہرے بِچھاؤں

مُقابلۂِ شطرنج کے انجام میں خوُدی کو لُٹتا دیکھوں

بِکھرتے رنگ

image

رنگوں کو فقط ذیب دیتا ہے بِکھرنا ، گرچہ میں بِکھروُں تو کیا ہو

پِھر سوچتی ہوُں آتش اَفروز کس رنگ میں نِہلاۓ گا مُجھے

پِگھل رہے ہیں بادل شمس کی تپِش سے جو بے تاب ہیں برسنے کو

اگر یہ گُستاخی تُجھ سے ہو تو میں خُدا سے بھی لَڑ جاؤں

اُس کا عکس نظر آنے لگا ہے مُجھے اِن سُنہری رنگوں میں اب تو

یہ آئینۂِ تصوّر ہےساقی کا جس کی کشِش میں جذب ہوئی جاتی ہوں

کائینات کے رنگ ہیں جامنی گُلابی اور کبھی سُرمئی بھی

رمز شناس ہو رنگِ عشق کو پِہچانو اِ نہیں سنوارو،  اور ضبط نہ کرو

بے مِثال تُو نہیں تیری شِدّت ہے جس کی ذیست سے شمعٰ روشن ہے

جانِثار کرتی ہوں پروانے پر جس کی عِبادت میں آیت نہیں اُس کا نام یاد ہے

….مَن چاہی

 

image
Enter a caption

دِل چاہے کہ روز

نئی کونپلوں کو

خُود میں بَنتے دیکھوں

پھر اِن کے جوبن سے

آراستہ ہوں حُسن

اور کِھلے گُلشن جب

اِس بدن کی سُرخ

شام میں جگیں سُرمئی

خواب جن میں

….سرُور کے سِوا کُچھ نہ ہو

دل چاہے کہ اُس ذُلف

کی سیاہ رات سے

اِس رُخ پہ اندھیرے

جگمگائیں اور وہ چُنے

تب اِن ہیِروں کی چمک

سے چَند نرمگیں پل

جن میں بِہہ کے ساحِل

کو بھُول جائیں اور پائیں

ایسی منزلیں جن میں

….روشنی کے سِوا کُچھ نہ ہو

دل چاہے کہ سرد شُعلہ

ہلکے ہلکے بُجھے اور

اِس ٹھنڈک سے پیر جلیں

تب بِچھنے لگُوں اُن قدموں

کی خوبصورت آغوش میں

اورنس نس میں دوڑتی

آگ اِس تاثیر کو ایسے

سُلگاۓ جِس میں

….بے خُودی کے سِوا کُچھ نہ ہو

شَبنمی موم

image

رُوح کِھچتی چلی گئی اُن لبوں میں ریزہ ریزہ ہو کر

اِس شباب و اُلفت کے کھیل میں عکس چُھپ سا گیا ہے

عالمِ اِنتہا میں ٹُوٹے شِدّتِ وصل تڑپ کے باہوں میں

اِس کسک و جلن کے کھیل میں وجُود بِہک سا گیا ہے

کِتنی بے چین تھی اُن ہاتھوں کی نرماہٹ میں یہ کلیاں

اِس وجد و تِشنگی کے کھیل میں ساغر چھَلک سا گیا ہے

شمعٰ کی کروٹوں میں آندھیوں کے شور کی ہلچل تھی

اِس موم و شبنم کے کھیل میں جسم پِگھل سا گیا ہے

خُوشبوُ

image

چَندن کے لَمس میں بُھلا دیا

خوُد آشنائی کو ہم نے اِس طرح

جیسے احساس کے جھرونکوں کو

…..سِہلا رہی ہو یہ خُوشبوُ

لِپٹی رہی مَلبُوس کی چار دیواری

میں رات بھر اِس طرح جیسے

ریشمی خیالوں کو

….مِہکا رہی ہو یہ خُوشبُو

زُلف میں جَڑ گئی ہے

موتِیۓ کی کلی بن کر اِس طرح

جیسے سِلوٹوں کی فِضاؤں کو

….بِہلا رہی ہو یہ خُوشبُو

پیمانۂِ لَب چُور ہے

بھرپُور نشے میں اِس طرح

جیسے مخمُور انگڑائیوں کو

….جگا رہی ہو یہ خُوشبُو

خُماری

image

گِرفت میں ہے مۓِ آتِش کہ چھَلک نہ جاۓ کہِیں

پِیتے پیتے ایک مُدّت  ہی نہ گُزر جاۓ  کہِیں

بھرے پیمانوں میں تیرتی ہیں پنکھڑیاں کنول کی

ڈُوبتے ڈُوبتے ایک مُدّت ہی نہ گُزر جاۓ کہِیں

غُنچۂِ دل ہے شگُفتگی کے طلِسمات سے مَخموُر

مُسکراتے مُسکرات ایک مُدّت ہی نہ گُزر جاۓ کہِیں

صندل بنے اُس وجُود کی رحمت سے پیراہنِ جاناں

مِہکتے مِہکتے ایک مُدّت ہی نہ گُزر جاۓ کہِیں

آغوشِ صنم میں بِکھر رہے ہیں کِنارۂِ جسم و جاں

سِمٹتے سِمٹتے ایک مُدّت ہی نہ گُزر جاۓ کہِیں

 

کٹے ہوُۓ پَر

image

اِن خوابوں کے جھمیلوں میں

جب سَچ کی دُھول اُترتی ہے

اور تلخ کڑوی پیاس کوئی جب

گھُونٹ بن کر اَٹکتی ہے تب

حقیقت کے سفید ورقوں پہ

سیاہی کا رنگ جب چڑھتا ہے

پھر چند جھُوٹے کِردار اور نقلی

افسانے پروان چڑھتے ہیں

اور اِن بے جان رُوحوں میں

جَگتی ہیں بناوٹی جِسموں کی

راکھ اور پِھر ہاتھوں کی لکیریں

…..مدھم نظر آنے لگتی ہیں

سُہانے پَلوں سے لِپٹے شاخ

کے جھُولتے سبز پتّے اور

اُن کے رس کو پیتے ہُوۓ

زرّہ زرّہ جب بھرنے لگے

نسوں میں زہر کا نشہ

تب دُور کہیں ایک فاختہ

اپنے پَر کٹنے کا جشن منا رہی ہوتی

ہے جِس کی اُڑان اِک حسرت

میں قید اُس آندھی کی شِدّت

اُڑا لے جاتی ہےاور تب

اُس کے آدھے مظبُوط اور

پُورے اِرادے جب ٹُوٹتے نظر

آئیں تب اُسے اپنی تقدیر

…..مدھم نظر آنے لگتی ہے

یقیِن

image

وہ لِکھے کورے کاغذ پہ مُجھے اور غرق ہونے لگوں

یہ سَچ ہے میں اُس کی غزل جیسی دِکھتی ہوں

خُود کو پایا ہے اُس کی شناخت میں بے حساب

یہ سَچ ہے میں اُس کی کہانی جیسی دِکھتی ہوں

اُس کی نظر سے دیکھوں بے تحاشہ حُسنِ رنگینیاں

یہ سَچ ہے میں اُس کے موسموں جیسی دِکھتی ہوں

اُس کی گُفتگو سے عیاں ہے میری داستانِ آشنائی

یہ سَچ ہے میں اُس کی نظم جیسی دِکھتی ہوں

اُس کے قدموں کے نِشاں میں میری تقدیر پِنہاں ہے

یہ سَچ ہے میں اُس کے ساۓ جیسی دِکھتی ہوں

اُس کے عکس میں تشبیہِ شمعٰ چمکتی ہے ہر سُو

یہ سَچ ہے میں اُس کے آئینے جیسی دِکھتی ہوں

سوغاتِ ذندگی

image

یہ رات کیوں ہوتی ہے؟        یہ شام کیوں ڈھلتی ہے؟

یہ دن کیوں نِکلتا ہے؟           یہ فِضا کیوں چلتی ہے؟

یہ رنگِ عشقِ کائنات ہیں ، اِن میں کھو جائیں

یہ پرِندے کیوں چِہچہاتے ہیں؟      یہ بادل کیوں گڑگڑاتے ہیں ؟

یہ آندھیاں کیوں مچلتی ہیں؟     یہ بِجلیاں کیوں چمکتی ہیں؟

یہ حُسنِ عشقِ کائنات ہیں ، اِن میں سِمٹ جائیں

یہ نظر کیوں بِہکتی ہے؟        یہ سانس کیوں اُکھڑتی ہے؟

یہ دل کیوں دھڑکتے ہیں؟         یہ جذبات کیوں تڑپتے ہیں؟

یہ صباحتِ عشقِ کائنات ہیں ، اِن میں نِکھر جائیں

یہ پُھول کیوں کِھلتے ہیں؟        یہ رنگ کیوں بِکھرتے ہیں؟

یہ آگ کیوں جلتی ہے؟            یہ پیاس کیوں بڑھتی ہے؟

یہ مُعجزۂِ عشقِ کائنات ہیں،  اِن میں سنور جائیں

یہ چاند کیوں چمکتا ہے؟        یہ سمندر کیوں ڈُوبتا ہے؟

یہ جھرنے کیوں بِہتے ہیں؟         یہ شَمس کیوں نِکلتا ہے؟

یہ فِردوسِ عشقِ کائنات ہیں ، اِن میں اُتر جائیں

یہ جسم کیوں پگھلتا ہے؟           یہ ساز کیوں بَجتا ہے؟

یہ رُوح کیوں کھِچتی ہے؟           یہ خواب کیوں بُنتی ہے؟

یہ معرفتِ عشقِ کائنات ہیں،  اِن میں مِٹ جائیں

یہ اُنس کیوں ہو جاتا ہے؟         یہ آنکھ کیوں ٹکراتی ہے؟

یہ زُلف کیوں لِہراتی ہے؟          یہ آہٹ کیوں چونکاتی ہے؟

یہ دولتِ عشقِ کائنات ہیں ، اِن میں چُھپ جائیں