…مُدّتوں بعد

image

….بعد مّدت کے سوچتی ہوں کہ

گہری جھیل کے کنارے بیٹھی نہیں

اُونچے پہاڑ پار کیۓ نہیں

تَپتے ستارے کی دمک چھوئی نہیں

….بعد مُدّت کے سوچتی ہوں کہ

ٹھنڈی چھاؤں تلے سوئی نہیں

گرم دھُوپ کو سیکا نہیں

طوُفانی برسات میں نہائی نہیں

….بعد مُدّت کے سوچتی ہوں کہ

سُہانی مِہک میں نکھری نہیں

دلکش نظارے کو چُوما نہیں

شوخ گُلشن میں سنوری نہیں

 

 

جمِیل احساس

image

اُس خوُشبو سے مُعطّر ہے

میری سانس کی دھیمی

مِہک جو اُس جمِیل شخص

کےحسین وجُود سے ٹکرا کے

واپس میری شناخت میں پیوست

ہو گئی ہے اور میں خُود کے

قید خانے کی ویِران گلیوں کا

….راستہ بھُول چُکی ہوں

میرے سونے کے اِس محل کی

خالی دیواروں پہ جب اُن جمِیل

ہاتھوں سے دستک ہوتی ہے تو

اِن کھنڈروں کے سُوکھے روشن دانوں

میں سے جھانکتی تِتلیاں اپنے

رنگ بِرنگی پروں سے اُن کناروں کو

سِہلا تی ہیں جن کی تنہائیوں کا

….راستہ بُھول چُکی ہوں

بادِ صبا چِڑاتی ہے اِس انداز سے

کہ آنگن کی گیِلی مِٹّی پِچھلی رات

کی کہانی دوہرا رہی ہو اور اُس

جمِیل آغوش کے مَرمریں احساس کے

رنگوں میں گَر شامل بھی ہو جاؤں

تو ہِجر کی راہوں سے سفر کرتی

یہ ٹِہنیاں اُن بادلوں کو چھُوتی

ہیں جن کی اُونچائیوں کا

….راستہ بھُول چُکی ہوں

گُل اَفشاں

image

مِحفلِ زندگی سج گئی ہے گُل رُخ کے آتے ہی

اُجالے نشِیلے اندھیرے جگَمگانے لگے ہیں

دَر و بام بھر گۓ نُور سےسبھی آشیانےکے

آنگن فروزاں دریچے مخملی لگنے لگے ہیں

گُل چاندنی میں نہاۓ شَبِ وصلت میں دوجسم

آفاق مَہتابی آسمان طلِسماتی لگنے لگے ہیں

گُل بازی کے کھیل میں پنکھڑئِ تن بکھرے تو

گُلشن زرخیزدشت و صحرارنگین لگنے لگے ہیں

مُحَبّت

image

چاہت کسی کی خُوشبو میں اُتر جانے کا نام ہے

چاہت کسی کی باتوں پہ مَر مِٹنے کو کہتے ہیں

چاہت کسی کے خوابوں میں کھو جانے کا نام ہے

چاہت کسی کی پیاس میں جل جانے کو کہتے ہیں

…..اِسی چاہت کی روشنی میں شمعٰ چمک رہی ہے آج

اُلفت کسی کی کائنات  کو سجانے کا نام ہے

اُلفت کسی کی باہوں میں مَر جانے کو کہتے ہیں

اُلفت کسی کی رُوح کو مُکمّل کرنے کا نام ہے

اُلفت کسی کےعکس میں خودکو پانےکو کہتے ہیں

……اِسی اُلفت کی مِہکشی میں شمعٰ پِگھل رہی ہے آج

مُحَبّت کسی کی آنکھوں میں ٹھہرنے کا نام ہے

مُحَبّت کسی کے دل میں دھڑکنے کو کہتے ہیں

مُحَبّت کسی کے وجُود میں بَس جانے کا نام ہے

مُحَبّت کسی کے قدموں میں بِچھ جانےکو کہتے ہیں

…….اِسی مُحَبّت کی عَظمت میں شمعٰ جی رہی ہے آج

سُرخ شرم

image

یہ تھکَن ہے یہ عِلامت

ہے اُن پَلوں کی جو گُزارے

ہیں قُربت کی دلفریب پناہوں

میں کہ درد جب چُور ہو اور

گواہ دینے لگیں جان وتن تب

احساس کے بِچھونے سے عیاں

ہوتے ہیں راز جن کی کشش

سے بِستر کی گرم سِلوٹوں

کے نِشاں حیا کی سیڑی

کبھی چڑھتےکبھی اُترتےہیں

…پلکوں کی چِلمنوں میں

ادھوُرے مراسم کی بے چین

اُمیدوں پہ جب جنون کی

پیاس چمکنے لگے تو چُبھتے

نرمگیِن لمس احساس کے

بادلوں سے برس جاتے ہیں

تب نَس نَس میں بھرتی آگ

وجُود میں ہلچل مچا دیتی

ہے پھر جلتے بُجھتے چراغ

چُھپنے لگتے ہیں

…پلکوں کی چِلمنوں میں

پیاس

image

وہ سمندرکہاں سے لاؤُں جو پیاس بُجھاۓ

وہ کُنواں کہاں سےلاؤُں جو پیاس بُجھاۓ

جس عادت میں بَندھ چُکی ہیں سانسیں

وہ رُوح کہاں سے لاؤُں جو پیاس بُجھاۓ

جس قُربت نے چَکھ لیا ہے نمکین زہر

وہ زائِقہ کہاں سے لاؤُں جو پیاس بُجھاۓ

جس تَسکین میں راحت مِلے عُمر بھر کی

وہ لمحہ کہاں سے لاؤُں جو پیاس بُجھاۓ

جس لَمس کی حِدّت میں کانپ اُٹھتا ہے بدن

وہ شِدّت کہاں سے لاؤُں جو پیاس بُجھاۓ

جس آگ کی گرمی میں شمعٰ جل رہی ہے

وہ پروانہ کہاں سے لاؤُں جو پیاس بُجھاۓ

ہِچکَچاہٹ

image

بِھیگی رُتوں کے سُوکھے خواب ٹھہر گۓ ہوں جیسے

شَجر کی ڈالیِوں سے جھڑتے ہیں پیوستِ خاک ہونے کو

جَھرنوں سے بِہتے پانی کی رفتار میں جِھجَک سی ہے

دریا کی انگڑائیوں سے مچلتے ہیں سپُردِ موج ہونے کو

شَمس کی مُسکراہٹ اُلفت کو چُھپا رہی ہو پھر بھی

اُفق کی چادروں سے جھانکتے ہیں قوسِ قزح ہونے کو

شراروں کی پِھیکی کِرنوں میں شوخی اِنتہا کی ہے

شمعٰ کی رعنائیوں سے ٹَپکتے ہیں جازبِ راکھ ہونے کو