محبُوب کی دنیا میں

image

سَرسَرسرکتی ہوائیں جہاں مدہوش ہوکرجھُومنےلگیں

جذبات کے پردوں پہ جہاں مخملی جال بِچھتے ہوں

دلکش انداز میں جہاں سجتے ہوں گُل و شجر بھی

….وہ شہر میرے جانم کے نام سے پہچانا جاتا ہے

جہاں سحر و شب چاندنی سجدے کرتی ہو

جہاں ہر پل بارش ٹُوٹ کے برستی ہو

جہاں دھنک کے آسمان میں حُسن کھیلے

….وہ شہر میرے دلبر کی دھڑکنوں سےمنسُوب کیاجاتا ہے

جس کی مِہک میں کِھلنے لگیں جسم و جان

جس کی ذُلف کو چُومیں تو ریشم بَنیں

جس کی سانسوں میں سمندر سی بے چینی ہو

….وہ شہر میرے محبُوب کی خوشبو سے یاد کیاجاتا ہے

جہاں دل عبادت میں صرف اُس کا نام لے

جہاں اُس چہرے کے سامنےسورج بھی ماندھ پڑے

جہاں سوآسمان بھی کم ہوں اُن بانہوں میں گُم ہو نےکو

….وہ شہر میرے گُلفام کے وجود سے جانا جاتا ہے

4 thoughts on “محبُوب کی دنیا میں

  1. َمحبت ایک ایسا فطری عمل ہے یا ایک ایسا جذبہ ہے جس پر فارسی کی یہ مثل کہ ” فکر ِ ہر کس ، بقدر ِ ہمت اُوست ” بالکُل صادق آتی ہے
    .
    ہر شخص ِاس جذبے سے آگاہ تو ہے مگر محسوس کرنے یا ” َجذب و مجذوب ” کی …” قُوت و قُدرت ” سب کی ، ایک دوسرے سے الگ ہے
    .
    جس طرح اس کی ِشدت الگ ہے ، اسی طرح اس کا اِظہار بھی الگ ہے . ہر شخص اس
    درد ِ نہاں کی کسک کو ، سوز کو ، الفاظ کا نقرئی مَلبوس عطا نہیں کر سکتا

    کہیں کوئی یہ کہہ کر چپ ہو جاتا ہے کہ :

    رات کی تنہایاں اور ، خَامشی کا ” شور ”
    جس میں تمام رنگ تھے ، تصویر جل گئی

    کوئی اپنے سراب کی تسلی یوں کرتا ہے کہ :

    تم میرے پاس ہوتے ہو ، گویا
    جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

    ( مومن )
    .
    کوئی اپنی ناآسودگی پر اس طرح َفغاں کرتا ہے کہ :

    تشنگی جم گئی ، پتھر کی طرح ہونٹوں پر
    ڈوب کر بھی ترے دریا سے میں پیاسا نکلا

    ( مظفر وارثی )


    کوئی جذبوں کے اس ُتند و خیز اور مَتلاطم َسمندر کے بارے میں یوں لکھتا ہے کہ :

    ہے وصل ، ہجر ، عالم ِ تمکین و ضبط میں
    معشوق ، شوخ و عاشق دیوانہ چاہیئے

    اس لب سے مل ہی جائے گا ، بوسہ ، کبھی تو ، ہاں
    شوق ِ فضول و ُجرات ِ رندانہ چاہیئے

    (غالب )

    کسی کی عرض ِ تمنا ،….. احساس ِ لاپروائی سے لبریز ، فلسفیانہ انداز لیئے ہوے ہے


    تم ، محبت میں ، کہاں سود و زیاں ، لے آئے
    عشق کا نام ، خِرد ہے نہ جَنوں ہے ، یوں ہے
    .
    شاعری ، تازہ زمانوں کی ہے معمار ،……. فراز
    یہ بھی ِاک سلسلہءِ کن فیکوں ہے ، یوں ہے

    کوئی چپکے سے یہ راگ گا رہا ہے کہ :

    کبھی یوں بھی آ ، مری آنکھ میں ، کہ مری نظر کو خبر نہ ہو
    مجھے ایک رات نواز دے ، مگر ، اس کے بعد ،……. سحر نہ ہو

    بشیر بدر

    یا یوں کہ :

    وہ فراق ہو کہ وصال ہو ، تری یاد مہکے گی ایک دن
    وہ گلاب بن کے کھلے گا کیا ، جو چراغ بن کے جلا نہ ہو

    کوئی اپنے گُم کردہ لمحوں کو ، اس طرح لکھ رہا ہے کہ ؛

    تیرے بارے میں جب سوچا نہ تھا
    میں تنہا تھا ، مگر ، اتنا نہیں تھا

    تیری تصویر سے ، کرتا تھا باتیں
    میرے کمرے میں ، آئینۂ نہیں تھا

    ( معراج فیض آبادی )


    کوئی اپنے جذبوں کی ” تمازت ” سے یوں لطف اندوز ہو رہا ہے کہ :

    یا صراحی لگا میرے منہ سے
    یا ، پلٹ دے نقاب ،… اے ساقی

    کسی کی فریاد اس رنگ میں گویا ہے کہ ؛

    اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
    آ ، تجھ میں گنگنانا چاہتا ہوں

    آخری ہچکی ، تیرے زانوں پہ آئے
    موت بھی ، میں ، شاعرانہ ، چاہتا ہوں

    اور پھر اپنی ” انا ” کا پتھر یوں پھینکتا ہے کہ :

    تھک گیا ، میں ، کرتے کرتے ، یاد تجھ کو
    اب ، تجھے ، میں ،……… یاد آنا چاہتا ہوں

    ( قتیل شفائی مرحوم )

    (( محبت اور انا …بھی ایک بہت مزیدار اور پرتفکر موضوع ہے …مگر پھر کبھی سہی ))

    کوئی اپنی تنہائ کی بازگشت یوں سن رہا ہے کہ :

    دشت تنہائ ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
    ہائے ، کیا لوگ میرا ساتھ ، نبھانے نکلے

    ( امجد اسلام امجد )

    کوئی ، اپنی ناکامی پر یوں لکھ رہا ہے کہ :

    مجروح ، لکھ رہے تھے وہ ، اہل وفا کا نام
    ہم بھی کھڑے ہوئے تھے ، گنہگار کی طرح

    ( مجروح سلطان پوری )

    کوئی ضَبط ِ شوق کی منزلوں سے ہمکنار ، اپنی کم مائیگی کے بارے میں یوں رَطب ُاللسان ہے کہ :

    دیوار ِ شب ، اور ، عکس ِ رُخ ِ یار دیکھنا
    پھر ، دل کے آئینے سے ، لہو پھوٹنے لگا
    .
    پھر وضحٔ ِاحتیاط سے ، دھندلا گئی نظر
    پھر ، ضبط ِ آرزو سے ،.. بدن ٹوٹنے لگا

    اور کوئی آشفتہ حال ، اپنی آشفتگی میں ، یوں آشفتہ نوا ہے کہ :

    دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا ؟

    ( انشاء )

    اور بقول پروین شاکر …

    آخرش ، وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
    تیرا یہ پیار بھی دریا ہے……، اتر جائے گا

    الغرض ہر قلم کی پکار ، منفرد اور جداگانہ ہے …اور آپ نے ان جذبوں کو نگار خانۂ دل میں آوایزاں انسانی جذبوں کی کمال ” منظر نگاری ” کی ہے


    آخرش

    چنگ را گیرید از دستم ، …. کہ کار از دست رفت
    نغمہء ام ، خوں گشت و از رگ ہا ئے ساز آ ید بروں

    ( اقبال )

    میرے ہاتھوں سے ، میرا ساز اب لے لو کیونکہ میں فنا ہو چکا ہوں ، مر چکا ہوں …( مگر ) میرا نغمہ ، میرا گیت میری پکار ، …” خون ” کی شکل اختیار کر کے ، ساز کے تاروں سے بہہ رہی ہے


    خیر اندیش

    Like

    1. وہ فراق ہو کہ وصال ہو ، تری یاد مہکے گی ایک دن
      وہ گلاب بن کے کھلے گا کیا ، جو چراغ بن کے جلا نہ ہو

      Like

Leave a comment