مَظہرِاُلفت

image

تُمہیں یاد آتی ہے میری جیسےصحرا کو بارش کا اِنتظار ہو

کیا تُم جانتے نہیں برستی ہےبارش ہی دشت میں مِل جانےکو

جن نشیلی عادتوں میں لگ رہی ہُوں خود کو بھُولتے بُھولتے

کیاتُم جانتے نہیں یہ ساقی کی نظروں سے پلایا ہُوا جام ہے

اِس وحشتِ ہِجر کے وصل سے چُرانا چاہتی ہُوں اب تُمہیں

کیا تُم جانتے نہیں آرزُو میں کشِش جگاتی ہے دُوریاں ہی

جس درد و رنج میں تُم سِمٹو وہ کسک گھاؤ سے آشنا ہے

کیا تُم جانتے نہیں اِس روگ میں چارہ گَر بھی زخم کھاۓ ہے

جب بھی سوچیں تُمہیں مہکنے لگتے ہیں جسم کے گُلِستاں

کیا تُم جانتے نہیں چمن میں خطاوارکہلاتا ہےگُلشن فروز ہی

جنہیں پا کے آراستہ ہیں در و بام میرے آشیانےکے گرچہ

کیا تُم جانتےنہیں روز آنگن میں میرےدُلہن بن کےسجتی ہے رات

2 thoughts on “مَظہرِاُلفت

Leave a comment