اُس رات جب ہم بیٹھے تھے
نہ جانے کیا بات ہُوئ
کُچھ آہٹ کی آواز ہُوئ
کُچھ کانوں میں سرگوشی تھی
بارِش کی بُوند سے مِہک گئ
شاید کُچھ کِہنے کو ٹِھہر گئ
تُمہاری آنکھ کا وہ سِتارہ
نہ جانے کونسی فضا تَھم گئ
جیسے کوئ دستک دینے لگی
اُٹھو ! ڈُھونڈو اُسے تم
جو ایک نئ روشنی دِکھا تا ہے
جِسکے قدموں میں بارش ہے
اُسکے ہاتھ کی گرمی سے
وہ لمحہ پِگھلتا ہے
کیسے ہم نے دیکھا تھا
جب ایک شمٰع جلائ تھی