! جُھکی نظروں سے پوچھے کوئی کہ شاموں پہ جوبن کس کا ہے
اُجالوں پہ کبھی سیاہی کی چادریں فریفتہ ہُوئی ہیں کیا؟
! بے داغ چمک سی چَھنتی جا رہی ہے کسی کے حُسنِ نُور سے
ستاروں پہ کبھی آفتاب کی کرنیں فریفتہ ہوئی ہیں کیا؟
! جواں افسانے انوکھے جال میں بندھی گردش کے مُحتاج ہیں
عاشقوں پہ کبھی اَنا کی بارشیں فریفتہ ہوئی ہیں کیا؟
! شمعٰ کی لپیٹ میں کس قدر مدہوش ہوُۓ جاتے ہیں سُرخ گلاب
پروانوں پہ کبھی ہوا کی بدلیاں فریفتہ ہوئی ہیں کیا؟