ہاۓ وہ خوُشبو میں لِپٹے ہاتھ
میری ہستی کو فنا کر چلے
وہ پناہوں کے مظبُوط جھرونکے
پِھر سے ارماں جگا کر چلے
چمکتی زنجیروں کے قید خانے
دل کے پنجرے کو اُڑا کر چلے
اُف وہ آئینے سےشفاف ساۓ
پِھر سے میری رُوح چُرا کرچلے
اَن کہےالفاظ کہہ گۓ اِشاروں میں
وہ اِک نئی پیاس کو بڑھاکرچلے
رُوٹھےجذبات کی راکھ اُڑتی گئی
شمعٰ کی موم کو پِگھلا کر چلے