کانپ جاتی ہے ذات
اُس کسک کی حرارت
میں گُھل کے تب جسم
نہیں جانتا کہ رُوح
…کس کی ہے
لرَزتے ہاتھوں سے پِھسلتی
جان گواہ ہے اُس دُھوپ
کی جس میں جل کے سورج
نہیں جانتا کہ تاثیِر
…کس کی ہے
کانپتے احساس کی سرد حِدّت
میں سِمٹا وہ پل جس کو چَکھ
کے زائِقہ نہیں جانتا کہ مِٹھاس
…کس کی ہے
لَرزتے ہونٹوں کی پیاس چُھوتی
رہی کنارے اُس پیمانے کے جس
کےنشے میں غرق ہو کر دل
نہیں جانتا کہ دھڑکن
…کس کی ہے