میں تیرا سایہ بنُوں تو
..دھُوپ میں ہی رہنا تُو صدا
میں تُجھ میں سما جاؤُں
..گی آفتاب بن کر
گُلوں سے جھڑتے لمحے
..جو چُومیں گے بدن تیرا
اُس خوشبو کی رنگت میں کھو
..جاؤُں گی خواب بن کر
جو بُوندیں نہلائیں تیرے وجود
..کی صَندلی گلیاں
میں اُن زرّوں میں ڈوب جاؤں
..گی شراب بن کر
گرم شِدّت میں جو ٹُوٹنے لگے
..تیری سرد آہیں
اِس شمعٰ کو اوڑھاؤں گی تُجھ
..پہ برفاب بن کر