کیسے بچ سکا ہے زہرِعشق سے آج تک کوئی
باوجُود شِدّت کے بھی دُنیا داری نہیں چھوڑتا
یہ وعدۂِ وفا کے دیتا ہے دلائل بے شُمار اکثر
جنون تو ہے ہی ظالم مصروفیّات نہیں چھوڑتا
کل نہ جانے کس جہاں کی زینت بنے یہ رُوح
بے بسی کی آڑ میں ہرجائی ضِد نہیں چھوڑتا
بے جان جسم کی یاد میں رویا ہے دل اِتنا
دو قدم پیچھےکیا یہ تو شکست کھانا نہیں چھوڑتا
افراتفری کے دَور میں عشق کرنے کی فُرصت کسے
شب و روز کے گُلستان میں کانٹے چُننا نہیں چھوڑتا
صداقت کی چادر میں ہِجاب اوڑھے ہے فریب یُوں
آب و تاب کے چولے میں افسُردگی پہِننا نہیں چھوڑتا