وصل میں دیتے ہیں آنسُو نئی راحت
ہِجر میں خُوشی جو مِلے سوغات ہے
شفق کرتی ہے چاک سِینہ بادل کا
شُعاع میں بارش جو مِلے سوغات ہے
پڑتی ہیں نظریں خنجر کی رفتار سے
قُربت میں فاصلہ جو مِلے سوغات ہے
خِزاں میں شجر مُسکرانے لگا ہے
پت جھڑ میں بہار جو مِلے سوغات ہے
اُس کی سنگت میں تِشنگی کی شِدّت
صِحرا میں سمندر جو مِلے سوغات ہے
کھِلتے ہیں پھُول کانٹوں کی بانہوں میں
زخم میں کسک جو مِلے سوغات ہے
شمعٰ پِگھلنے لگی مزار پہ عشق کے
انجام میں اِعزاز جو مِلے سوغات ہے