وہ سمجھ کے پیِتا رہا لہُو آبِ حیات کو
جسم اُس کا تھا رُوح منسُوب تھی مجھ سے
میرے ہونے نہ ہونے کی کیا شناخت رہی اب
نام اُس کا تھا ذات منسُوب تھی مجھ سے
کچھ درد کا حِصّہ اور خط میں لِپٹے آنسو
عُنوان اُس کا تھا داستان منسُوب تھی مجھ سے
خواہش کے سمندر میں ڈُوبی فقَط میری ہستی
شِکارہ اُس کا تھا لِہر منسُوب تھی مجھ سے
نہ چاہا کچھ سِواۓ چاہنے کی تِشنگی میں
جام اُس کا تھا خُماری منسُوب تھی مجھ سے
آنکھ میں چُبھتا پَل ٹِھہر گیا ڈَر سے شاید
فیصلہ اُس کا تھا خامِشی منسُوب تھی مجھ سے
بیداری ہو عشق میں تو بے زار ہو جاتی ہے لگن
خُدا اُس کا تھا عبادت منسُوب تھی مجھ سے