پڑھ کے نظم میری وہ کیا سوال کر بیٹھا
مُجھ سےمیری کروٹوں کا حِساب مانگ بیٹھا
سمجھ کے خیال کو سَچ کا آئینہ میرا
خُود سے اپنےوجُود کا جواب مانگ بیٹھا
سایہ تھا وہ میرا اور میں دھُوپ اُس کی
میرے نُور کو اوڑھ کے ہِجاب مانگ بیٹھا
غافل ہے وہ درد و تڑپ سے اِس رنج سے
شاید اِسی عِوض وہ ثواب مانگ بیٹھا
حیرانگی سے تَکتا رہا لُوٹ کر آب و تاب
جانے کس بادشاہی کا خِطاب مانگ بیٹھا