آنے والے کل میں بَستا ہے وہ
جنگل جہاں کے بھٹکے ہُوۓ
جُگنوؤں کے جلتے بدن کبھی
زندگی تو کبھی موت کا پروانا
…لِکھتے ہیں
بِچھڑے ماضی کے سمندر میں
رہتے سِیپ تو کبھی ریت کے فالتو
زرّات ساحل کی آغوش میں اپنا
…نرم ٹِھکانہ ڈھُونڈتے ہیں
آج کے شمس و قمر میں وہ
تاب نہیں جو ایک بادل کے پردے
تلے اپنی شناخت پا لیں وہ کبھی
لمحوں کے اُڑتے دنوں میں تو کبھی
برسات کے ظالم شور میں اپنی
…کرنیں بھِگوتے ہیں