چمکتا ہے پھر بھی یہ
آدھا رِہ کر تاکہ مُکمّل
ہو سکیں کائنات کے رنگ۔۔۔
اپنے ہی مدھم عکس
میں جھانکے تو گُم ہونے
لگتا ہے تاکہ آئینہ بن سکے
اُسکے وجود کا حاصل۔۔۔
رکھتا ہے دُور خود کو
ستارے کے شر سے تاکہ کر
سکے رقص کہکشاں ہِجر میں۔۔۔
چھُپے ہے کالی بدلی کے
سراب تلے تاکہ عیاں ہو سکے
اُس کڑی حقیقت کا مزاج۔۔۔
بہاتا ہے اَشک چھُپ کے
گہرے دل کی پناہ میں تاکہ
دے سکے شکست اپنی ہی
رُوح کے آسمان کو۔۔۔