اب رات نہیں دن کے اُجالے ستاتے ہیں بُہت
کہِیں خزاں بنے تو بہاروں نے لُوٹا کبھی
بارشوں کی نمی میں دُھل گۓ بِہتے بِہتے
کہِیں راستوں پہ بھٹکے دو مُسافر تو
کبھی منزلوں کا دل چاک کِیا خاک چھانتے چھانتے
ڈُوبے کئی بار خوشبوؤں کے بھنور میں تو کبھی
سُرخرو ہُوۓ اپنی ہی تھکی ہُوئی سانسوں میں بِہہ کر
مگر اب رات نہیں دن کے اُجالے ستاتے ہیں بُہت