یہ خواب تھا یا پھر دستک
بِسری آ ہٹ کی یا پھر
سے کوئی اِشارہ اُس کی جانب۔۔
کل رات عجب ہُوا
جو نہیں ہونا چاہیۓ تھا
وہ ہُوا۔۔
میں بیٹھی تھی سر ہانے
اور قلم تھا ہاتھ میں
تب نیند کے پایئدان پہ
وہ آنکھ تھی رُوبرو اور
پہلو سنگ وہ ہاتھ؍ جن کی
جدائی اب داستان بن کے
رہ گئی ہے فقط۔۔
وہ پھر سے نۓ افسانے
دوہرانا چاہتا تھا شاید۔
کُچھ دُور تھا؍ سامنے آنا
چاہتا تھا شاید۔
اُس کا لمس وہ خوشبوُ
سونپ کر مُجھے اِک بار پھر
آزمانا چاہتا تھا شاید۔۔
یہ خواب ہے وہ حقیقت تھی۔
تب بھی سب خواب سا
لگتا تھا اور آج یہ خواب
سچ سا لگا جیسے اُس نے
پُکارا ہو مجھے اور میں آزاد
فاختہ بن کر اُڑنے کے لیۓ
تیار ہُوں ایک بار پھر سے۔۔
اب بھی وہ جراثیم میرے
رگ رگ میں پیوست ہیں مگر نہیں۔۔۔
مجھے رکھنا ہے خود کو مظبوط
تاکہ خواب ؍ خواب ہی رہیں
گر حقیقت بن گۓ تو۔۔۔۔
بصری آہٹ کی ترکیب توجہ طلب ہے
LikeLike